مہر خبررساں ایجنسی نے اسپوتنک کے حوالے سے بتایا ہے کہ عبرانی زبان کے اخبار Haaretz نے خبر دی ہے کہ امریکی حکومت سعودی عرب میں یورینیم کی افزودگی کے لیے تنصیبات کی تعمیر پر غور کررہی ہے۔ بائیڈن انتظامیہ اس سہولت کو اپنی نگرانی میں رکھنے اور ممکنہ طور پر اسے دور سے کنٹرول کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے: ابھی تک امریکی حکومت کے اس منصوبے کی تکنیکی خصوصیات کی مزید تفصیلات شائع نہیں کی گئی ہیں۔ تاہم بائیڈن کو اس منصوبے کی منظوری کے لیے امریکی سینیٹ کے 67 اراکین کی حمایت درکار ہے۔ یہ اس وقت ہے جب ان کی پارٹی کی امریکی سینیٹ میں 51 نشستیں ہیں۔ امریکی حکام کا خیال ہے کہ اس منصوبے کی منظوری کے لیے اس ملک کی سینیٹ میں ڈیموکریٹس کو قائل کرنے کے لیے کافی محنت درکار ہے جو خاص طور پر جوہری شعبوں میں سعودی درخواستوں کے خلاف ہیں۔
ہاریٹز نے مزید لکھا: اگر امریکی سینیٹ میں تمام ڈیموکریٹس اس منصوبے پر متفق ہوں تو بھی امریکی حکومت کو ریپبلکنز کی حمایت حاصل کرنی ہوگی۔ امریکی ڈیموکریٹک سینیٹر کرس مرفی نے زور دے کر کہا: ہم جو بائیڈن کی خارجہ پالیسیوں سے متفق ہیں اور میں نے ذاتی طور پر کئی بار افغانستان سے انخلاء جیسے ان کے متنازعہ اقدامات کی حمایت کی ہے، حالانکہ میں اب بھی اس پر قائل نہیں ہوں۔
انہوں نے مزید کہا: سعودی درخواستیں امریکہ کو مشرق وسطیٰ میں متضاد اور خونی کھیل کی دلدل میں گھسیٹ سکتی ہیں۔ یہ اس وقت ہے جب امریکہ کے مفادات یورپ اور مشرقی ایشیا میں واشنگٹن کے اتحادیوں کی حمایت پر مرکوز ہیں۔ میں ریاض اور تل ابیب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے حق میں ہوں، لیکن میں نہیں سمجھتا کہ زیادہ تر امریکی چاہتے ہوں کہ ان کا ملک مشرق وسطیٰ میں دوبارہ فوجی اور سیاسی تنازعات کی طرف کھنچا جائے اور یہ سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدے پر دستخط کرنے کے ممکنہ نتائج میں سے ایک ہوگا۔
اس سے قبل سعودی حکام جوہری پروگرام شروع کرنے اور یورینیم کی افزودگی کے لئے امریکہ کے ساتھ دفاعی معاہدے پر دستخط کرنا چاہتے تھے۔
آپ کا تبصرہ